رفاقت کے تری قصے کئی برسوں پرانے ہیں
مگر اب تک ہمیں سب یاد وہ گزرے زمانے ہیں
ہوائیں بھی بڑی پر زور ، موجیں بھی ہیں طوفانی
سفر دشوار ہے اور دور بھی اپنے ٹھکانے ہیں
یہ کیسے مان لوں مجبور ہیں وہ آ نہیں سکتے
اگر ملنا ہو تو ملنے کے کتنے ہی بہانے ہیں
انھیں بھی ناز نظروں پر ، ہمیں بھی ناز ہے دل پر
چلائیں تیر نظروں کے سب ہم نے آزمانے ہیں
نئی الفت میں خود کو مبتلا کرنے سے ڈرتے ہیں
ابھی تو پہلی چاہت کے الم دل سے بھلانے ہیں
یہ روح و جسم کا رشتہ تو اک دن ٹوٹ جانا ہے
حقیقت ہے یہی سب سے بڑی باقی فسانے ہیں
کسی بھی شہر میں پائی نہ لوگوں سے وفا ہم نے
رہیں اب اس جگہ زاہد جہاں ہر سو ویرانے ہیں