اگر ہو سکے تو لوٹ آ
Poet: ایمان شہروز By: imaan shehroz, haroonabadﺍﺑﮭﯽ ﮐﭽﮫ ﻭﻗﺖ ﺑﺎﻗﯽ ﮨﮯ
ﺍﮔﺮ ﮬﻮ ﺳﮑﮯ ﺗﻮ ﻟﻮﭦ ﺁ
ﻣﯿﺮﮮ ﮬﻢ ﻧﺸﯿﻦ ﻣﯿﺮﮮ ﮬﻢ ﻧﻮﺍ
ﮐﭽﮫ ﻭﻗﺖ ﮨﮯ ﺟﻮ ﮔﯿﺎ ﻧﮩﯿﮟ
ﻟﮩﻮ ﺭﮔﻮ ﮞ ﻣﯿﮟ ﺟﻤﺎ ﻧﮩﯿﮟ
ﺳﺎﻧﺲ ﺍﺑﮭﯽ ﮨﮯ ﺭُﮐﯽ ﻧﮩﯿﮟ
ﺍﮎ ﺁﺱ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺗﮭﻤﯽ ﻧﮩﯿﮟ
ﻣﯿﺮﺍ ﺿﺒﻂ ﮔﺮﭼﮧ ﮐﻤﺎﻝ ﮨﮯ
ﻣﮕﺮ ﺯﻧﺪ ﮔﯽ ﮐﺎ ﭘﺘﮧ ﻧﮩﯿﮟ
ﺍﮔﺮ ﮬﻮ ﺳﮑﮯ ﺗﻮ ﻟﻮ ﭦ ﺁ
ﻣﯿﺮﮮ ﮬﻢ ﻧﺸﯿﻦ ﻣﯿﺮﮮ ﮬﻢ ﻧﻮﺍ
ﺗﯿﺮﯼ ﺟُﺴﺘﺠﻮ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﻥِ ﺟﺎﮞ
ﻧﮧ ﺍﭘﻨﯽ ﺟﺎﮞ ﺳﮯ ﮔﺰﺭ ﺳﮑﮯ
ﺳﻨﺒﮭﻞ ﺳﮑﮯ ﻧﮧ ﺑﮑﮭﺮ ﺳﮑﮯ
ﻧﮧ ﺁﺭﺯﻭ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﺍُﺟﮍ ﺳﮑﮯ
ﮐﺎﺭﻭﺍﻥ ﯾﮧ ﺣﯿﺎﺕ ﮐﺎ
ﮬﺮ ﺣﺎﻝ ﺳﻮ ﭼﻠﺘﺎ ﺭ ﮨﺎ
ﭼﺮﺍﻍِ ﻋﻤﺮ ﺟﯿﺴﮯ ﮐﻮئی
ﺑُﺠﮭﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﺲ ﺟﻠﺘﺎ ﺭﮨﺎ
ﺟﻮ ﮬﻢ ﮐﻮ ﺗﻢ ﭘﺮ ﮔﻤﺎﻥ ﺗﮭﺎ
ﻣﺤﺒﺘﻮ ﮞ ﭘﺮ ﻣﺎﻥ ﺗﮭﺎ
شاید اب وہ نہیں رہا
ﻣﯿﺮ ﮮﮬﻢ ﻧﺸﯿﻦ ﻣﯿﺮ ﮮ ﮬﻢ ﻧﻮﺍ
ﺍﮔﺮ ﮬﻮ ﺳﮑﮯ ﺗﻮ ﻟﻮﭦ ﺁ
ﻭﮦ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﻭﮦ ﺭﮨﮕﺰﺭ
ﮐﭽﮫ ﻣﻨﺰﻟﯿﮟ ﺍﻧﺠﺎﻥ ﺳﯽ
ﻭﮦ ﭼﺎ ﮨﺘﻮﮞ ﮐﺎ ﺣﺴﯿﮟ ﺳﻔﺮ
ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺍ ﮨﺸﯿﮟ ﺑﮯ ﻧﺎﻡ ﺳﯽ
ﮈ ﮬﻮ ﻧﮉﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﮨﺮ ﮈﮔﺮ
ﺍﮎ ﺍﮎ ﮔﻠﯽ ﮬﺮ ﺍِﮎ ﻧﮕﺮ
ﮐﮩﺎﮞ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ ﮐﯿﺎ ﮐﮭﻮ ﮔﺌﮯ
ﮐﯿﻮﮞ ﮬﻢ ﺳﮯ ﮬﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ ﺑﮯﺧﺒﺮ
ﮐﯿﺎ ﺟﻨﻮﮞ ﮐﯽ ﺣﺪ ﺳﮯ ﮔﺰﺭ ﮔﺌﮯ
ﯾﺎ ﺷﮑﺴﺘﮧ ﭘﺎ ﮨﮯ ﮬﺮ ﺍﮎ ﻗﺪﻡ
ﮐﯿﺎ ﺑﺮﻑ ﺩِﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍُﺗﺮ ﺁﺉ
ﯾﺎ ﺍُﻣﯿﺪ ﮐﯽ ﺑﺎﻗﯽ ﮨﮯ ﮐﺮﻥ
ﺍﺱ ﺳﮯﭘﮩﻠﮯﺁﺧﺮﯼ ﺳﮩﺎ ﺭﺍ ﭼﮭﻮﭨﮯ
ﺟﺴﻢ ﮐﺎ ﺟﺎﮞ ﺳﮯ ﮐﻨﺎ ﺭﮦ ﭨﻮ ﭨﮯ
ﺍِﮎ ﺑﺎ ﺭ ﺁ ﮐﺮ ﻣﻞ ﺫ ﺭ ﺍ
ﻣﯿﺮﮮ ﮬﻢ ﻧﺸﯿﻦ ﻣﯿﺮﮮ ﮬﻢ ﻧﻮﺍ
ﺍﮔﺮ ﮬﻮ ﺳﮑﮯ ﺗﻮ ﻟﻮﭦ ﺁ
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






