ایمان کتنا ، شِکستہ ہوگیا ہے
گناہ پھر ، دانستہ ہوگیا ہے
جن مُنکرات کا باغی تھا کبھی دل
اُنہیں کا رَفتہ ، رَفتہ ہو گیا ہے
چلنا پُرلطف و سہل تھا جس پر
کٹھن کتنا وہ ، رَستہ ہو گیا ہے
چلو چل کر پڑھتے ہیں نماز کہ
اِسے پڑھے بھی ، ہفتہ ہو گیا ہے
بہہ کر بھی رنگ نہیں لاتا اب تو
لہو مسلماں کا کتنا ، سستا ہوگیا ہے
اخلاق وہ کفر کا تھرتھرانا لرزنا
چھوڑو یہ قصہ ، گزشتہ ہوگیا ہے