اے صنم جس نے تجھے چاند سی صورت دی ہے
اسی اللہ نے مجھ کو بھی محبت دی ہے
تیغ بے آب ہے نے بازوئے قاتل کمزور
کچھ گراں جانی ہے کچھ موت نے فرصت دی ہے
اس قدر کس کے لیے یہ جنگ و جدل اے گردوں
نہ نشاں مجھ کو دیا ہے نہ تو نوبت دی ہے
سانپ کے کاٹے کی لہریں ہیں شب و روز آتیں
کاکل یار کے سودے نے اذیت دی ہے
آئی اکسیر غنی دل نہیں رکھتی ایسا
خاکساری نہیں دی ہے مجھے دولت دی ہے
شمع کا اپنے فتیلہ نہیں کس رات جلا
عمل حب کی بہت ہم نے بھی دعوت دی ہے
جسم کو زیر زمیں بھی وہی پہونچا دے گا
روح کو جس نے فلک سیر کی طاقت دی ہے
فرقت یار میں رو رو کے بسر کرتا ہوں
زندگانی مجھے کیا دی ہے مصیبت دی ہے
یاد محبوب فراموش نہ ہووے اے دل
حسن نیت نے مجھے عشق سے نعمت دی ہے
گوش پیدا کیے سننے کو ترا ذکر جمال
دیکھنے کو ترے، آنکھوں میں بصارت دی ہے
لطف دل بستگیٔ عاشق شیدا کو نہ پوچھ
دو جہاں سے اس اسیری نے فراغت دی ہے
کمر یار کے مضمون کو باندھو آتشؔ
زلف خوباں سی رسا تم کو طبیعت دی ہے