بس ترے ایک روٹھ جانے سے
میں خفا رہتا ہوں زمانے سے
رات بھر کل میں سو نہیں پایا
تیری یادوں کے جھلملانے سے
بعد تیرے تو ہوتی ہے وحشت
مجھ کو جگنو کے ٹمٹمانے سے
جس کی خاطر بھلا دیا سب کچھ
اس کو فرصت نہیں زمانے سے
در بدر جو ہوا تو خیال آیا
کیا ملا مجھ کو گھر جلانے س
اب حقیقت ہے تھک گیا ہوں میں
ہجر میں زندگی بتانے سے
ہجر کا درد جاں کہاں چھوڑے
یہ تو جاتا ہے جان جانے سے
روز لڑتا ہے چھوڑ جاتا ہے
شرم آتی ہے اب منانے سے
جانے کیوں زیست رُک سی جاتی ہے
کسی اپنے کے چھوڑ جانے سے
کتنی حُوریں اکٹھی کی اس نے
خُود کو اک بوم سے اڑانے سے
خون بہتا ہے میری آنکھوں سے
کربلا تیرے یاد آنے سے
بن گیا عشق تو وبالِ جاں
بھولتا ہی نہیں بھلانے سے
اب کے ساۓ سے بھی وہ ڈرتا ہے
جو کہ ڈرتا نہ تھا ڈرانے سے
آج پھر دکھ ملا تو یاد آیا
کوئی نکلا ہے دل کے خانے سے
پیار کی مثل مل گئی باقرؔ
مجھ کو مٹی کے گھر بنانے سے