بس ترے ایک روٹھ جانے سے
Poet: مرید باقر انصاری By: مرید باقر انصاری, Karachiبس ترے ایک روٹھ جانے سے
میں خفا رہتا ہوں زمانے سے
رات بھر کل میں سو نہیں پایا
تیری یادوں کے جھلملانے سے
بعد تیرے تو ہوتی ہے وحشت
مجھ کو جگنو کے ٹمٹمانے سے
جس کی خاطر بھلا دیا سب کچھ
اس کو فرصت نہیں زمانے سے
در بدر جو ہوا تو خیال آیا
کیا ملا مجھ کو گھر جلانے س
اب حقیقت ہے تھک گیا ہوں میں
ہجر میں زندگی بتانے سے
ہجر کا درد جاں کہاں چھوڑے
یہ تو جاتا ہے جان جانے سے
روز لڑتا ہے چھوڑ جاتا ہے
شرم آتی ہے اب منانے سے
جانے کیوں زیست رُک سی جاتی ہے
کسی اپنے کے چھوڑ جانے سے
کتنی حُوریں اکٹھی کی اس نے
خُود کو اک بوم سے اڑانے سے
خون بہتا ہے میری آنکھوں سے
کربلا تیرے یاد آنے سے
بن گیا عشق تو وبالِ جاں
بھولتا ہی نہیں بھلانے سے
اب کے ساۓ سے بھی وہ ڈرتا ہے
جو کہ ڈرتا نہ تھا ڈرانے سے
آج پھر دکھ ملا تو یاد آیا
کوئی نکلا ہے دل کے خانے سے
پیار کی مثل مل گئی باقرؔ
مجھ کو مٹی کے گھر بنانے سے
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے






