مجھے اُن سی اتنی چاہت ہے
اور میری یہ اک حسرت ہے
ہلکی سی اک برسات ملے
اور قُرب و وصل کی رات ملے
وہ سنتے رہیں میں سناتا رہوں
اُنھیں حالِ دل یوں بتاتا رہوں
دل کی تحریر کو میں ایسا پڑھوں
کہ میں روتا رہوں ہچکیاتا رہوں
پھر اُن کے دلاسوں کو سن کر
میں خود پہ ضبط آزماتارہوں
میرایوں رونا ان کو براجو لگے
پونچھ کر اپنے آنسواپنی آستین سے
ہاتھ باندھے میں ان کو مناتارہوں
پھر نہ رونے کی قسمیں میں کھاتا رہوں
بس۔۔۔۔!
’’ میری یہ اک حسرت ہے ‘‘
پھر و ہ مجھ سے کہیں
کیوں روتے ہوتم
کیوں رُلاتے ہوتم
یوں محبت کو کیوں آزماتے ہو تم
تم محبت ہو جب تم میری جان ہو
پھر حالات کو کیوں راہ میں لاتے ہو تم
میں تیرا پیار ہوں میں تیرے ساتھ ہو
تو ہے میرا جہاں میں تیری کائنات ہوں
تیرے جیسااظہار مجھ میں نہیں
میں مالکِ نازک جذبات ہوں
میں کہوں نہ کہوں ہے حقیقت یہی
میرے دل میں تیری چاہت ہے
مجھے تم سے بہت محبت ہے
یہ سننا میر ی خواہش ہے
بس۔۔۔!
’’ میری یہ اک حسرت ہے ‘‘