بڑی حسرتیں بھر گئی دل میں لمحات کے اس پار چلیں
آؤ بھی اک بار کہ جذبات کے اس پار چلیں
دھڑکنوں کے گرد اور بھی جگہ خالی ہے رہنے کو
مجھ میں سما جاؤ تو مات کے اس پار چلیں
یہ چاند تو ہر شب میری رمزیں دیکھتا ہے
تم آہیں چرالو کہ رات کے اس پار چلیں
باتوں باتوں میں تو پھر کئی باتیں نکلیں گی
اب بات یہ ہے کہ بات کے اس پار چلیں
الجھ کر زندگی نے کہاں سنورنے کو سوچا
اس کشمکش سے نکلو کہ کائنات کے اس پار چلیں
دامن جنبش کو اب سمیٹ بھی لو سنتوش
تھوڑی سانسیں روک کر اضطراب کے اس پار چلیں