تم ہی کہو کیسے سنبھلیں پھر
جب تھامنے والا ہی چھوڑے تو
کھلنے کی امید کیسے کرئے
جب پھول کو مالی توڑے تو
عجب کھیل ہے رشتوں کا
عجب یہ دنیا داری ہے
کبھی کوئی دوا کا کام کرئے
کوئی رشتہ خود بیماری ہے
ہر کوئی مجرم سا لگتا ہے
دل کی عدالت کے کٹہرےمیں
ذات اپنی بھی لگتی ہے
مجھے تو لاشعور کے پہرے ہیں
کوئی خواہ کیسا ہی سچا ہو
کبھی پھر سچا نہیں لگتا
جب بروسہ ٹو ٹ جائے تو
کو ئی اچھا نہیں لگتا
کوئی جیل سے تو نکل سکتا ہے
اپنی ذات سے کیسے نکلے گا
برف ہو تو پگھل بھی جائے کنولؔ
پہاڑ کوئی ہو تو کیسے پگھلے گا