ٹوٹ گئی آس مگر آنکھ سے اشارہ نہ کیا
ہم نے بیتے ہوئے لمحوں پے گزارہ نہ کیا
رک گئے پاؤں تو زمیں تھم سی گئی
ہم نے ہر سفر پہ جانے کا استخارہ ناں کیا
کیسا احساس ہے ندامت سے جھکی ہیں پلکیں
کیا اک بار جو جرم پھر وہ دوبارہ ناں کیا
اک پل صراط ہے اشکوں کو پار کرنا ہے کومل
ڈوبتی کشتی پے بھی ہم نے سہارا ناں کیا