بے وفائی سے پریشان بھی ہو جاتے ہیں
نرم جھونکے کبھی طوفان بھی ہو جاتے ہیں
ہم نے محبوب جو بدلا تو تعجب کیسا
لوگ کافر سے مسلمان بھی ہو جاتے ہیں
یوں تو اک درد کا رشتہ ہے زمانے بھر سے
لوگ کچھ زیست کا عنوان بھی ہو جاتے ہیں
شہر بھر کو میں محبّت تو سکھا دوں لیکن
خود تراشے ہوئے بھگوان بھی ہو جاتے ہیں
ہم تو پرکھوں کی روایت کو نبھانے کے لئے
حرمت عشق پہ قربان بھی ہو جاتے ہیں
حادثہ ہو یا کوئی معجزہ شاہی کچھ ہو
راستے پیار کے آسان بھی ہو جاتے ہیں