رفتہ رفتہ وہ شخص میرے دل سے اُترتا ہی چلا گیا
وہ جو ایک طلسم تھا محبت کا، ٹوٹتاہی چلا گیا
وہ تھا انا کا ساقی، اپنی ہی ذات میں مدغم
خودی کا جام پی لر وہ اپنی ذات سے مجھے تفریق کرتا ہی چلا گیا
وہ شخص جو کبھی محبت کا خدا ہوا کرتا تھا
رفتہ رفتہ وہ محبت سے منکر ہوتا ہی چلا گیا
بے باک لہجہ، الفاظ کے تیر، نفرت کے سے تیور
رفتہ رفتہ وہ بے مہار صیاد بنتا ہی چلا گیا
وقعت ہی نہ رہی محبت کی اُس شخص کے سامنے
رفتہ رفتہ وہ مجھے بے مول ٹھہراتا ہی چلا گیا
میں تو قائل ہوں محبت کی، اُسے دل سے نہ کر سکی جدا
رفتہ رفتہ شدت عشق جڑ پکڑتا ہی چلا گیا
میں تو ہوں ناکام مسافر جسے ساتھ چلتے ہی جانا تھا
رفتہ رفتہ وہ مجھے بے نام منزل سے آشنا کرتا ہی چلا گیا
بدرجئہ اتم مایوسی و تنہائ نے گھیر لیا آخر “فائز“
رفتہ رفتہ فرشتہ اجل روح میری پرواز کرتا ہی چلا گیا