تری جفاؤں کا آخر حِساب ہونا ہی تھا
رفاقتوں کو تو اِک دِن عذاب ہونا ہی تھا
زمانے بھر کی ملامت کی ذد میں کیوں آیٔ ؟
کلی کو کھِل کے کبھی تو گلاب ہونا ہی تھا
جفا سے اپنی ہمیں تم نے کر دیا برباد
تمہارے ہاتھوں مقدر خراب ہونا ہی تھا
تمہاری بزم میں تم سے سوال کیا کرتے
کہ جانتے تھے ہمیں لا جواب ہونا ہی تھا
میں تیرے سحر سے بچ کر نکل نہ سکتی تھی
تجھے ضرور مرا اِنتخاب ہونا ہی تھا
یقین کچے گھڑے پر کیا تھا سوہنی نے
سو ایک دِن اسے رزقِ چناب ہونا ہی تھا
کتابِ دِل وہ پڑھے جا رہے تھے مدت سے
کبھی تو ختم محبت کا باب ہونا ہی تھا