دل میں قید ہی رکھا محبت کے افسانے کو
من ہی من میں گایا چاہت کے ترانے کو
نہ سونا تھا ، نہ چاندی تھی نہ شہنشاہ تھے مگر پھر بھی
سانسوں کو رکھا گروی محبت تری پانے کو
ارمان ہم نے گواہ دیے ، سکون اپنا لٹا دیا
تری طوائف خواہشوں پہ بچا نہ کچھ لٹانے کو
ترک جب ہو گیا تعلق جو دل سے بنایا تھا
بچا ہے کیا بھلا پیچھے کچھ سننے کو سنانے کو
ستم مجھ پر کیے تم نے ، میرا دل تم ہی نے توڑا
سبب تم ہو اِس حالت کے ، الزام کیوں دوں زمانے کو
صنم تری ہی چوکھٹ پہ دم نکلے سینے سے
بھلا پھر اور کیا چاہیے محبت میں دیوانے کو
جاناں ! ترے شہر کے پاس بنا ہے مزارِ نہالؔ
کبھی کبھار ہی آ جانا ، بس دِیا جلانے کو