ترے جمال سے بڑھ کر جمال کیا ہو گا
ترا جواب نہیں ہے، سوال کیا ہو گا
قرار چھین گیا ہے ترا تصور ہی
حضور حسن میں جانے یہ حال کی ہو گا
ترے خیال کا ہجراں میں لطف اتنا ہے
میں سوچتا ہوں کہ آخر وصال کیا ہو گا
کمال اُس کا بنایا ہے تُجھ کو فرصت سے
غرور جس پہ اُسے ہو، کمال کیا ہو گا
وہ آ گئے ہیں عیادت کو اور کیا مانگوں
مریض اس سے زیادہ نہال کیا ہو گا
شریک خوشیوں میں میری وہ جب نہیں ہوتے
مجھے ہے رنج، تو اُن کو ملال کیا ہو گا
سرور، قرب سے بڑھتا ہے، اور بڑھ جائے
ذرا بھی خود کو نہ اظہر سنبھال، کیا ہو گا