غزل اس کے لیے کہتے ہیں نغمے گا رہے ہیں ہم
تصور میں کسی سے پیار کرتے آ رہے ہیں ہم
یہ بھیگا بھیگا موسم اور یہ ٹھنڈی ہوا توبہ
جدھر دیکھو ادھر ہے آج الفت کی فضا توبہ
نشیلا سا سماں ایسے میں بہکے جا رہے ہیں ہم
تصور میں کسی سے پیار کرتے آ رہے ہیں
مہکتے ریشمی جھونکے بدن سے آ کے ٹکرائے
تمنا نے کہا اے کاش اس کی زلف لہرائے
یوں لگتا ہے کہ جیسے لمس اس کا پا رہے ہیں ہم
تصور میں کسی سے پیار کرتے آ رہے ہیں ہم
غزل اس کے لیے کہتے ہیں نغمے گا رہے ہیں ہم
تصور میں کسی سے پیار کرتے آ رہے ہیں ہم