تعاقب میں
Poet: فاروق نور By: فاروق نور, Burhanpurتعاقب میں
تمہیں بھی وہ دن ہے یاد جس دن
گئے تھے ہم تم
محبتوں کی حسین و پر لطف وادیوں میں
برائے تفریح
اداس رستوں پہ چلتے چلتے
اک ایسی منزل بھی آ گئی تھی
نہیں تھا ہم کو گمان جس کا
سراغ جس کا
عجیب بستی تھی وہ بھی جاناں
وہ جس میں انسان ہی کے جیسے تھے لوگ سارے
مگر وہ انساں نہیں تھے شاید
وہ کالے کالے عجیب چہرے
ہماری جانب ہی دیکھتے تھے
نحیف و لاغر تھے جسم لیکن
عجیب آنکھوں میں اک چمک تھی
جو پوچھتی تھی
ہماری خاطر نہ پھل نہ میوے
نہ کھیتوں میں اناج کوئی
ہماری تہذیب نَے تمدن معاشرہ نہ رواج کوئی
یہ سب تو حق نے تمہیں دیا ہے
مگر تمہیں ہے نہ قدر اس کی
نہ اس کی عظمت کا کچھ پتہ ہے
یہ سن کے تم کچھ سہم گئی تھی
تمہارا چہرہ ڈرا ہوا تھا تمہاری آنکھیں پھٹی ہوئی تھی
وہیں پہ تم نے کہا تھا مجھ سے
کیا تھا سب کو ہی رزق دینے کا حق نے وعدہ
کدھر ہے آخر
دبی دبی سی زباں سے تم کو کہا تھا میں نے
چلو کہ اب ہم چلیں یہاں سے
یہ سن کے ان میں سے ایک بچہ ہماری جانب لپک پڑا تھا
وہ کالا کالا عجیب بچہ
نحیف و لاغر غریب بچہ
میں سوچتا ہوں
جو رزق دینے کا وعدہ رب نے کیا تھا سب سے
وہ رزق اس کا ہماری جیبوں میں تو نہیں ہے
وہ جس کو پانے کی آرزو میں
وہ کالا کالا عجیب بچہ
مرے تعاقب میں چل رہا تھا
تعاقب میں
تمہیں بھی وہ دن ہے یاد جس دن
گئے تھے ہم تم
محبتوں کی حسین و پر لطف وادیوں میں
برائے تفریح
اداس رستوں پہ چلتے چلتے
اک ایسی منزل بھی آ گئی تھی
نہیں تھا ہم کو گمان جس کا
سراغ جس کا
عجیب بستی تھی وہ بھی جاناں
وہ جس میں انسان ہی کے جیسے تھے لوگ سارے
مگر وہ انساں نہیں تھے شاید
وہ کالے کالے عجیب چہرے
ہماری جانب ہی دیکھتے تھے
نحیف و لاغر تھے جسم لیکن
عجیب آنکھوں میں اک چمک تھی
جو پوچھتی تھی
ہماری خاطر نہ پھل نہ میوے
نہ کھیتوں میں اناج کوئی
ہماری تہذیب نَے تمدن معاشرہ نہ رواج کوئی
یہ سب تو حق نے تمہیں دیا ہے
مگر تمہیں ہے نہ قدر اس کی
نہ اس کی عظمت کا کچھ پتہ ہے
یہ سن کے تم کچھ سہم گئی تھی
تمہارا چہرہ ڈرا ہوا تھا تمہاری آنکھیں پھٹی ہوئی تھی
وہیں پہ تم نے کہا تھا مجھ سے
کیا تھا سب کو ہی رزق دینے کا حق نے وعدہ
کدھر ہے آخر
دبی دبی سی زباں سے تم کو کہا تھا میں نے
چلو کہ اب ہم چلیں یہاں سے
یہ سن کے ان میں سے ایک بچہ ہماری جانب لپک پڑا تھا
وہ کالا کالا عجیب بچہ
نحیف و لاغر غریب بچہ
میں سوچتا ہوں
جو رزق دینے کا وعدہ رب نے کیا تھا سب سے
وہ رزق اس کا ہماری جیبوں میں تو نہیں ہے
وہ جس کو پانے کی آرزو میں
وہ کالا کالا عجیب بچہ
مرے تعاقب میں چل رہا تھا
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے






