قسمت کی ہر لکیر سمے سے خفا ہوئی
تم کیا جدا ہوئے کہ تمنا جدا ہوئی
اٹھے جو ہاتھ لب پہ تیرا نام ہی آیا
پھر اسکے بعد کوئی نہ مجھ سے دعا ہوئی
سنتے ہیں وہاں شوق کا دریا امڈ پڑا
میری نماز عشق جہاں پر ادا ہوئی
زور جنوں نے تھام کے رکھا لہر کا ساتھ
کشتی کنار گاہ کی طرف بار ہا ہوئی
کچھ اس طرح سے ٹوٹا طلسم ردائے حسن
گویا فریب رنگ سے تتلی رہا ہوئی