تمھارے حسن کو کچھ دیر دیکھوں تو قرار آئے
Poet: Dr.Zahid sheikh By: Dr.Zahid Sheikh, Lahore Pakistanتماشا ساری دنیا میں بنا دو گی مری محبوب
تمھیں چاہا ہے تو اس کی سزا دو گی مری محبوب
کبھی تقدیر سے کچھ بھی نہیں مانگا قسم لے لو
اگر تم سے میں کچھ مانگوں تو کیا دو گی مری محبوب
لگی دل کی بجھانے میں اتر جاؤں گا دریا میں
مگر اک آگ اس میں بھی لگا دو گی مری محبوب
یہی سب سوچ کر اظہار الفت کر نہیں پاتا
مجھے ناگاہ نظروں سے گرا دو گی مری محبوب
تمھارے حسن کو کچھ دیر دیکھوں تو قرار آئے
ذرا سا رخ سے کیا پردہ ہٹا دو گی مری محبوب
چلی جاؤ گی کل پردیس پھر کیسی ملاقاتیں
مری ہستی،مری باتیں بھلا دو گی مری محبوب
بس اتنا سا بتا دو گر لگی ٹھوکر تو اس لمحے
تڑپ کر مجھکو دھیمی سی صدا دو گی مری محبوب
تمھاری بے رخی کب تک سہوں میں یہ ذرا سوچو
جواں جذبوں کے سب شعلے بجھا دو گی مری محبوب
امنگوں کو جگا رکھا ہے میں نے آج بھی ، دیکھو
انھیں پر سرد مہری سے سلا دو گی مری محبوب
یہ خوش فہمی رہی طوفان ہستی میں مجھے اکثر
کنارے اپنی پلکوں کے بچھا دو گی مری محبوب
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل
فقیریہ ترے ہیں مری جان ہم بھی
گلے سے ترے میں لگوں گا کہ جانم
نہیں ہے سکوں تجھ سوا جان ہم بھی
رواں ہوں اسی واسطے اختتام پہ
ترا در ملے گا یقیں مان ہم بھی
تری بھی جدائ قیامت جسی ہے
نزع میں ہے سارا جہان اور ہم بھی
کہیں نہ ایسا ہو وہ لائے جدائ
بنے میزباں اور مہمان ہم بھی
کہانی حسیں تو ہے لیکن نہیں بھی
وہ کافر رہا مسلمان رہے ہم بھی
نبھا ہی گیا تھا وفاکو وہ حافظ
مرا دل ہوا بدگمان جاں ہم بھی
زِندگی جینے کی کوشش میں رہتا ہوں میں،
غَم کے موسم میں بھی خوش رہنے کی کرتا ہوں میں۔
زَخم کھا کر بھی تَبسّم کو سَنوارتا ہوں میں،
دَردِ دِل کا بھی عِلاج دِل سے ہی کرتا ہوں میں۔
وقت ظالم ہے مگر میں نہ گِلہ کرتا ہوں،
صبر کے پھول سے خوشبو بھی بِکھرتا ہوں میں۔
چاند تاروں سے جو باتیں ہوں، تو مُسکاتا ہوں،
ہر اَندھیرے میں اُجالا ہی اُبھارتا ہوں میں۔
خَواب بِکھرے ہوں تو پَلکوں پہ سَمیٹ آتا ہوں،
دِل کی ویران فَضا کو بھی سَنوارتا ہوں میں۔
کون سُنتا ہے مگر پھر بھی صَدا دیتا ہوں،
اَپنے سائے سے بھی رِشتہ نِبھاتا ہوں میں۔
دَرد کی لَوٹ میں بھی نَغمہ اُبھرتا ہے مِرا،
غَم کے دامَن میں بھی اُمید سجاتا ہوں میں۔
مظہرؔ اِس دَور میں بھی سَچ پہ قائم ہوں میں،
زِندگی جینے کی کوشَش ہی کرتا ہوں میں۔






