تمہارے چاہنے والوں میں ہم بھی شریک تھے
تیری نظر میں رہتے تھے اور دل کے قریب تھے
ہمیں خوش فہمیوں نے کیسے کیسے خواب دکھائے
چلو جھوٹے ہی سہی خواب مگر دل فریب تھے
یہی اک جرم کیا دل لگا بیٹھے ہیں کسی سے
وگرنہ آدمی اچھے بھلے ہم بھی شریف تھے
بنا سوچے بنایا تھے جنہیں ہم نے رفیق اپنا
رقیبوں سے ملے تھے اور وہ اپنے حریف تھے
تیری آنکھوں میں خود کو دیکھ کر ہم اسلئے پلٹے
یہ سوچا ہم نہیں شاید وہ ہمارے رقیب تھے
متانت اور سنجیدہ روی افلاک نے ان کو
سکھا ڈالی جو اپنے آپ میں بنتے ظریف تھے
عظمٰی بھی آخر جان گئی راز زندگی
اس داستاں میں گرچہ عجیب تھے