تمہیں اُس شب بہت سوچا
کہ جب بادل بھی چھائے تھے
بڑی ہی تیز بارش تھی
ہوا بارش کے قطروں سے
بڑی اَٹھکیاں کر کے
میرے کمرے کی کھڑی سی
ٹکرا کر بہت ہی شور کرتی تھی
چمکتی بجلیاں بھی تو
اُسی کھڑی کے رستے سے
ذرا سی دیر رُک رُک کر
مجھے ہی جانکتیں تھیں بس
ہوا کے تیز جھونکے بھی چکے سے
دبے پاؤں ہی آتے تھے
میری ٹیبل پہ رکھے
کاغذوں کو بھی اُڑاتےتھے
اُنہیں اراوق پہ لکھی
تری نظمیں بھی تھیں شاید
جنہیں خون ِجگر سے لکھ کر
ابھی ٹیبل پہ رکھا تھا
ہوا سے اُڑ گئے ایسے
وہ سارے لفظ بھی جیسے
ساحل کی ریت پر لکھ کر
لکھا جیسے نہیں ہوتا
کوئی زندگی میں مل کر بھی
ملا جیسے نہیں ہوتا
محبت خواب تھی سوچا
یا اک سراب تھی سوچا
گئے بادل گئی بارش
ہوا بھی تھم گئی لیکن
تمہیں اُس شب بہت سوچا