تنہا تھے ہم نہ دور نہ کوئی قریب تھا
Poet: سید عبدالستار مفتی By: سید عبدالستار مفتی, Samundri Faisalabadتنہا تھے ہم نہ دور نہ کوئی قریب تھا
کشتی کے ڈوبنے کا بھی منظر عجیب تھا
سوچا تھا جیت لوں گا محبت کی قربتیں
لیکن کہاں میں اِتنا بڑا خوش نصیب تھا
آیا تیری گلی میں تو جنت میں آگیا
نکلا تو یوں لگا ، کہ جہنم نصیب تھا
یہ صرف تیرے سوزِ محبت کا تھا اثر
شاعر نہیں تھا کوئی نہ کوئی ادیب تھا
یاروں پہ کیا لگائیں خیانت کی تہمتیں
بزمِ وفا میں دل ہی ہمارا رقیب تھا
یامیں جواب دینے کی جراءت نہ کرسکا
یا آپ کا سوال عجیب و غریب تھا
دنیا نے ہی کیا ہمیں نفرت سے آشنا
ورنہ عدو بھی اپنی نظر میں حبیب تھا
ساحل کی آرزو بھی نظر میں نہ آسکی
ٹوٹی ہوئی تھی کشتی ، سمندر مہیب تھا
ملنا بڑا محال تھا اس شوخ سے مرا
جتنا تھا وہ رئیس میں اتنا غریب تھا
ہر گام پر تھیں بھول بھلیاں کھلی ہوئیں
نقشہ تمہارے شہر کا کتنا عجیب تھا
یامیں جواب دینے کی جراءت نہ کرسکا
یا آپ کا سوال عجیب و غریب تھا
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے






