تیرے حسیں تصور میں جو رات گزری ہے
نجانے کیسی وہ شب تھی جو آج گزری ہے
تیری خوشبو سے جانا کہ تو پاس ہے کہیں
ہوا کے دوش پے جب وہ مہکار گزری ہے
وہ جگنو جو چمکتے تھے میری آنکھوں میں
اسی اجالے میں ایک اور بہار گزری ہے
تیرے بدن کی وہ کسمساتی ہوئی شوخی
بہتے چشموں سے بار بار گزری ہے
تیری ہنسی کے وہ گنگناتے جھرنوں میں
برستے موسموں کی پھوار گزری ہے