تیری یاد توشہ درد تھی جب اٹھے تھے تیرے دیار سے
نہ ملی فرار کی کوئی جا غمِ زندگی کے حصار سے
وہ رفاقتوں کا ہی فیض تھا کہ کمال جس نے عطا کیا
کبھی دوستی تھی خزاں سے بھی، اب عداوتیں ہیں بہار سے
ملی خاک میں تری آبرو، تھا تو سر بسر ہمہ جستجو
جو تھا گامزن رہِ شوق پر، تجھے کیا ملا دلِ زار سے
ابھی خود نوشت بھی کیا لکھیں جو عبارتوں میں بھی کھوٹ ہو
کہ فرار کو تو نے جا بجا یوں بدل دیا ہے قرار سے
تیری چال مشقِ عروض ہے، تو غزل ہے یا کہ غزال ہے
ہے ردیف زلفِ دراز سے، ملا قافیہ لبِ یار سے
یہ وصال تاج عجیب تھا کہ کمال جس نے عطا کیا
غمِ زندگی دلِ زار سے، غمِ عاشقی دلِ یار سے