تیرے سبھی تصور دل کے آغوش میں پڑے ہیں
جو ستاتے تھے خیال وہ خاموش میں پڑے ہیں
شاید تیری ادراکیت میں کمی سی آگئی ہے
یا میرے متفکر سبھی مدھوش میں پڑے ہیں
کچھ تو ہے کہ دھڑکنیں ماروائے احساس بن گئیں
آج بھی سبھی مزاج جیسے افسوس میں پڑے ہیں
وہ منزلوں کے راستے زمانے نے بھلا دیئے
اب قدم تو دنیوی روش میں پڑے ہیں
ان زخموں کی رفوگری کچھ غیروں نے جو کی تھی
کہ چبھتے ہاتھ کے کانٹے ابھی ہوش میں پڑے ہیں
میں محبت کی سنگدلی سے انحراف نہیں کرتا
پھر میرے درد کیوں یہ دوش میں پڑے ہیں