جب بھی پیار کی نگاہ نگاہوں میں پھیل جاتی تھی
اُس جوانی کی ڈھلتی رِدا ہواؤں میں پھیل جاتی تھی
چھپاکے پھول کتابوں میں اپنے سینے پہ دباکے رکھے
یوں کلیوں کی خوشبوءُ دھڑکنوں میں پھیل جاتی تھی
چاندنی کو دیکھ کر بھی اکثر دیئے جلائے رکھتی وہ
یہ پاگل سے لڑکی کبھی قضاؤں میں پھیل جاتی تھی
جس کا بھی غم مٹانے گئے وہ غم پھر نکل پڑا
یوں ہر لمحہ مۂ کشی سزاؤں میں پھیل جاتی تھی
کسی اجڑے شخص نے گلستاں کو صدا دے دی کہ
چمن کی اڑتی خاک میری راہوں میں پھیل جاتی تھی
میں نے حقیقت عیاں کی وہ شکوہ سمجھ بیٹھے
ایسے بھی سنتوشؔ زندگی گناہوں میں پھیل جاتی تھی