ہر روز کی طرح آج کا دن بھی انتظار میں گزرا
امید بھی ٹوٹی اور شیشہ دل بھی تو بکھرا
سنبھل نا پائیں مجھ سے میری اداسیاں
جب میں نے ماضی کی کچھ خسین یادوں کو چھیڑا
روک کیسے لیے کسی کو گزرتے رستے میں
جبکہ میری ہستی ہے طویل دکھوں کا صحرا
پوچھے تو کوئی کس طرح کیوں اداس رہتے ہو
ہر کسی پر تنگ ہے اپنی ہی مصیبتوں کا گھیرا
بانٹتے رہے اوروں کے غم دل کھول کر ہم
آج جب میں ہوں اکیلا پورا شہر اجنبی سا چہرا
چلو کے لوٹ چلتے ہیں رات کی تنہائی میں
میرا درد باٹنے کیلیے شاید چاند تاروں کے ساتھ ہو ٹھرا