جب ہوا نیند سے بیدار بہت یاد آئی
تیری ہر بات مِرے یار بہت یاد آئی
تیرے بھولے ہوئے اقرار پہ رونا آیا
پھر تری شوخئی گفتار بہت یاد آئی
اپنی ہر بات منانے کی وہ معصوم ادا
تیری ہر جیت مری ہار بہت یاد آئی
ننگے پاوں تو مرے سامنے آئی جس دن
تیری پازیب کی چھنکار بہت یاد آئی
یاد آیا ہے مجھے آج وہ ماضی کا سماں
رونقِ گلشن و گلزار بہت یاد آئی
اس نے آنچل نہ اتارا تھا مرے کہنے پر
مجھ کو یہ صورتِ کردار بہت یاد آئی
ٹکٹکی باندھ کے بادل پہ ذرا غور کیا
زلفِ جاناں مجھے غمخوار بہت یاد آئی
جعفری جن سے ہوئے گھائل و مجروح بڑے
تیکھی نظروں کی وہ تلوار بہت یاد آئی