جسم سے روح تک اترتی ہوئی
Poet: فاروق نور By: فاروق نور, Burhanpurجسم سے روح تک اترتی ہوئی
ایک خوشبو تھی وہ بکھرتی ہوئی
جیسے طوفان کوئی ٹھہرا ہوا
جیسے آفت کوئی گزرتی ہوئی
اس کی پیشانی جیسے چڑھتی دھوپ
زلف اس کی تھی چھاؤں کرتی ہوئی
اس کے ابرو کوئی گھنا جنگل
اور پلک تھی اڑان بھرتی ہوئی
اس کا چہرہ تھا پھول کھلتا ہوا
آنکھ گویا تھی بات کرتی ہوئی
زلف اس کی سیاہ شب کی طرح
صبحِ عارض پہ شام کرتی ہوئی
اس کے دندان موتیوں جیسے
اس کی بولی دلوں کو ہرتی ہوئی
اس کے لب تھے چھلکتے پیمانے
اس کی گردن صراحی بھرتی ہوئی
اس کی آواز اک ندی طرح
دل کے ویرانے سے گزرتی ہوئی
اس کا سینہ کشادہ اک میداں
اس پہ چٹان وہ ابھرتی ہوئی
اس کمر کی لچک کو کیا کہئیے
جیسے ہرنی کوئی گزرتی ہوئی
اور مغرور مورنی کی طرح
دو قدم چلتی اور ٹھہرتی ہوئی
اس کی آنکھوں کی یاد ہے چتون
سہمی سہمی ہوئی سی ڈرتی ہوئی
یوں سنورتی تھی آئینے کے قریب
جیسے تقدیر ہو سنورتی ہوئی
میرے کمرے میں اب بھی ہے موجود
ایک تصویر بات کرتی ہوئی
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے






