محبت اب بھی اسکی ہے وہی پائندہ پائندہ
نگاہیں خیرہ کرتا ہے وہی چہرہء تا بندہ
محبت جرم ہے گر تو مجھے اقرار ہے اسکا
کرونگا ارتکاب اس جرم کا آئندہ آئندہ
میں اس کو کھو کے اپنے آپ سے ناراض رہتا ہوں
ہر اک لمحہ گزرتا ہے میرا شرمندہ شرمندہ
وہ مل جاتی اگر مجھ کو میری قسمت بدل جاتی
میں اپنے آپ کو کہتا یہاں فرخندہ فرخندہ
میں مرجاؤں تو میری قبر کے کتبے پہ لکھ دینا
وفاء کے دیس کا مدفون ہے باشندہ باشندہ
میرے ہونٹوں پہ اسکے نام کی تکرار ہے اشہر
میرا دل اب بھی کہتا ہے فقط رخشندہ رخشندہ