زلف پریشاں کیے ہوئے ہم چلتے رہے شب بھر
اور آتش فرقت ایسی بھڑکی ہم جلتے ریے شب بھر
ہم نالاں ہیں حوادث کے مارے ہجراں کی یلغار سے
اور وہ بن سنور کے دامن حسن میں مچلتے رہے شب بھر
عرش سے فرش تک نگری نگری سب انکے ہیں دیوانے
اور ہم ایک جھلک آنکھوں میں سمانے چھت پے رہے شب بھر
ہم شام غم میں منہ کو چھپائے زخم زخم رستے رہے
اور وہ بھر کے پیمانہ اپنے روپ کا چھلکتے رہے شب بھر
وہ اپنے تخیل کے سفر میں صبح و شام مصروف تھے
اور ہم فرصت کے مارے سنگ در پے تڑپتے رہے شب بھر
ہم بھرے شجر کا ساتھ سمیٹے سائے سے بھی دور تھے
اور وہ اپنے آنچل ہوا کے دوش پے بدلتے رہے شب بھر