جو نظام ہے کائنات کا نہ تو اس میں کوئی کجی ملے
یہ شعور سے ہی پرے ملے تو نظر ہمیشہ تھکی ملے
تو چلا اسی نے دیئے دو دریا کہ اک ہے میٹھا تو اک کھارا
رہے آڑ بیچ میں ان کے ہی تو عجیب کاریگری ملے
جہاں پھول ہیں وہاں کانٹے بھی جہاں کانٹے ہیں وہاں پھول بھی
یہی دھوپ چھاؤں رہے یہاں نہ تو کوئی اس سے بری ملے
رہے حوصلہ تو بلند ہی نہ ذوقِ طلب میں رہے کمی
نہ تو دور ہو گی مراد بھی نہ کبھی سعی میں کمی ملے
نہ کبھی زیاں بھی کسی کا ہو یہی بات پیش نظر رہے
رہے بس دھیان تو اس کا ہی کہ کسی کا من نہ دکھی ملے
یہ چراغ سے ہی جلے چراغ نہ رہے چراغ تو تیرگی
یہی فکر اثر کی ہوگی بس نہ چراغ کی لو بجھی ملے