لذت عشق پہ رحمت ہیں سختیاں ٹھہرو
ابھی سینے میں اترنے دو برچھیاں ٹھہرو
کون دکھلائے گا پھر انکو آبلہ پائی
میرے تلووں کو چومتی ہیں کرچیآں ٹھہرو
اے میرے پردہ نشیں احتیاط ہے لازم
کاٹ نہ لیں زنان مصر انگلیاں ٹھہرو
شوق کو آس نے آواز دے کے بتلایا
کھولتی جا رہی ہے شام کھڑکیاں ٹھہرو
آج پھر لو کے تھپیڑوں سے کہا فطرت نے
جھولتی ہیں کہیں پینگوں پہ لڑکیاں ٹھہرو
اے چلتے وقت کی لہرو یہ سرعتیں کیسی
میرے ہمراہ ہیں یادوں کی تتلیاں ٹھہرو
میں تیرے پیار میں ایندھن بنوں تو کیسا گلہ
کاٹ ڈالو میری گل دار ٹہنیاں ٹھہرو
آزماتے ہیں چلو زور بادبانوں کا
ڈال دو بیچ میں طوفاں کے کشتیاں ٹھہرو