بگڑ کر پھر سنور جانا ضروری ہو گیا تھا
پرانے زخم بھر جانا ضروری ہو گیا تھا
محبت کی صداقت کو پرکھنا تھا مجھے بھی
مرا تجھ سے بچھڑجانا ضروری ہو گیا تھا
کسی کے عشق کی گہرائی مجھ کو جاننا تھی
سمندر میں اُتر جانا ضروری ہو گیا تھا
مجھے بدنام ہونا تھا، سو، اپنی پی وفا پر
کوئی الزام دھرجانا ضروری ہو گیا تھا
خزائیں بانٹنے آئی تھیں مجھ سے درد اپنے
میں کیا کرتا بکھر جانا ضروری ہو گیا تھا