میری تنہائی کی رات ہے
خود سے جاری یہ بات ہے
جانتی ہوں تو اداس ہے
مجھے اس کا احساس ہے
نہیں ہوں میں چاہت تیری
غارت کروں راحت تیری
تیری شکایات کے انبار ہیں
سننے کو ہم تیار ہیں
اگرچہ روح کو تڑپائیں گی
تیری باتیں ہمیں ستائیں گی
مگر پھر بھی ہے آرزو
کہ ہو تجھ سےگفتگو
بے بسی کی انتہا ہے
جب جنون کو نہ راہ ملے
کسی کا ساتھ چاہوں تو
تنہائی ملے سزاملے
وفا کروں دغاملے
بھلائی کی نہ جزا ملے
میرے جیسے مریض کو
نہ دوا ملے نہ دعا ملے
یہ کیسے لفظ ہیں
میرے وجود کو ہیں چاٹ رہے
میری حسرتوں کو توڑ کر
میرے وجود کو ہیں بانٹ رہے
ٹکڑے ٹکڑے ذات کو
سمیٹنے کے در پر ہوں
خود سے ہوں بے خبر
کون ہوں کس کے گھر میں ہوں
مگر پھر بھی ہے جستجو
کہ ہو تجھ سے گفتگو
آج پھر سے ممکن ہے
ہوں ہم تم دو بدو
تیر جیسے الفاظ تیرے
اتریں میری زات میں
پھر سے مخل ہو جائے تو
میری تنہائی کی رات میں