میری موت کا سامان تیار کر کے
مجھے جینے کی دعا دے رہے ہو
میرے پیروں تلے زمیں کھینچ کر
مجھے چلتے رہنے کی دعا دے رہے ہو
ارے کس قدر ظالم ہو تم
میری آنکھوں سے خواب چھین کر
مجھے منزل کو پانے کی دعا دے رہے ہو
میرے سر سے آسماں چھین کر
مجھے چاند تارے پانے کی دعا دے رہے ہو
میرے ہونٹوں پر جو سدا سے برقرار تھی
اس انمول سی ہنسی کو اک پل میں چھین کر
مجھے سدا مسکرانے کی دعا دے رہے ہو
جس آشیانے میں میرا دن رات بسیرا تھا
اس کو اپنے ہاتھوں سے جلا کر راکھ کر دیا
اور اب مجھے گھر بسانے کی دعا دے رہے ہو