دلِ تباہ یہ ہر پل دہائی دیتا ہے
وہ ساتھ غیر کے کیونکر دکھائی دیتا ہے
میں ایک عمر سے ہوں اس کے بام پر اٹکا
نہ مجھ فقیر کو شرفِ گدائ دیتا ہے
جواب دُور سے دیتا ہے وہ سلاموں کا
کہاں وہ ہاتھ کسی کے کلائ دیتا ہے
نہ اپنی زلف کے ساۓ میں قید کرتا ہے
نہ اپنے ہجر سے مجھ کو رہائی دیتا ہے
ہے مجھ سے پیار کا دعویٰ تو بےبہا اس کا
نہ مجھ کو جسم تلک پر رسائی دیتا ہے
خدا کو ڈھونڈنا پڑتا ہے چھوڑ کر دنیا
وہ اپنے آپ کہاں آشنائ دیتا ہے
بھلایا اس کیلۓ جس نے بھی خدائی کو
وہ ایک دن اسے ساری خدائی دیتا ہے
کوئی تو آۓ یہ ظلمت یہ خوں گری روکے
ہر اک زباں سے یہ کلمہ سنائی دیتا ہے
ہر ایک شخص سے باقرؔ ہے دوستی اس کی
بس ایک مجھ کو نہ وہ ہم نوائ دیتا ہے