دکھ اس بات کا ہے کہ کبھی دکھ بھی نہیں ہوتا
وقت سے ملامت کرنے سے کچھ بھی نہیں ہوتا
اپنی سوچ کی لاپرواہی کہ ہر دکھ اوروں کا ہے
کبھی مڑکے خود پہ سوچنے کا رُخ بھی نہیں ہوتا
ہنگامے اور فساد ورغلانے کے سوا کیا ہیں
اوروں سے چھینا ہوا سُکھ، سُکھ بھی نہیں ہوتا
ہماری محل سرا کی منزل تو خدا کے پاس ہے
اٹھتے خیالوں کا فن و فریب پنکھ بھی نہیں ہوتا
یہ لاجواب مشقتیں گذر کو ترکیب دیتی ہیں
کبھی لال سے لال ملاکر لکھ بھی نہیں ہوتا
میں قدم تو روک لوں مگر وقت کو مہلت نہیں
جیون جلا گیلی لکڑی کہ رکھ بھی نہیں ہوتا