دیا بجھا ہے انہیں کے گھر کا کہ جن میں کچھ حوصلہ نہیں ہے
میں کیسے کہہ دوں کہ آندھیوں میں چراغ کوئی جلا نہیں ہے
ہے مذہبوں میں یہ کیسی نفرت ، عداوتیں دل میں جاگزیں ہیں
جدا ہے چہرہ، بدن جدا ہے ، لہو کی رنگت جدا نہیں ہے
جدید طرزِ عمل نے کھیلا ہے بے حیائی کا کھیل ایسا
نہین ہے رخ پر حجاب باقی ، نگاہ میں بھی حیا نہیں ہے
سسک رہی ہے غریب بیٹی، ضعیف والد بھی رو رہا ہے
دلہن بنے گی رچے گی مہندی ، نہ جانے کب، یہ پتا نہیں ہے
کہیں بھی ہو حادثہ وطن میں ہمیں ہیں ملزم ہمیں ہیں مجرم
ہے کو ن ملزم ہے کون مجرم کسی سے اب تو چھپا نہیں ہے
نظر ہے اپنی خیال اپنا جہاں میں وشمہ کا فیصلہ ہے
کہیں بھی سب کچھ بھلا نہیں ہے کہیں بھی سب کچھ برا نہیں ہے