چالِ غضب نے بھیجا، ہم کو دیوانگی میں
خود اپنی ہوش سے، اپنی بیگانگی میں
جیون میں آنے کی کچھ خبر بھی دیجئے
کتاب دل پہ نام درج میرا کر بھی دیجئے
آنکھوں کے تیر آپ، دیکھیں تو جائیں چل
پروانے تو نہیں ہم، یکدم جو جائیں جل
تیر آپ چلائیں ہم پہ، روز بے تکلف
سہنے کو مگر روز اک جگر بھی دیجئے
کتاب دل پہ نام درج میرا کر بھی دیجئے
آنکھوں کو ہو گئی ہے، تمھیں دیکھنے کی عادت
چاہوں میں تم کو اتنا، گویا عابد کرے عبادت
باہر کھڑے کھڑے اب، تھک گیا ہوں میں
رہنے کے لئے دل میں کوئی، گھر بھی دیجئے
کتاب دل پہ نام درج میرا کر بھی دیجئے
دن، ہفتہ، سال، نہ مہینہ چاہتا ہوں
محبت میں تیری عمر بھر، میں جینا چاہتا ہوں
انتظار ہم کریں گے، آزمائش سے زیادہ
خود کی بانہوں میں اب، بھر بھی دیجئے