دیکھے ہیں حکومت کے تو دستور نرالے
ہر چیز ہے مہنگی مریں گے لوگ بچارے
سبزی یہ ٹماٹر نہیں دال بھی سستی
مہنگائی میں لوگوں نے کشکول اٹھالے
مخلص نہیں اب دوست رہے حال برا ہے
اب ملتے نہیں ہیں کہیں چائے کے پیالے
احساس دلایا ہے یقیں ہو گیا پختہ
ممکن ہو مرے ساتھ چلے وقت گزارے
کوئی نہیں ہے حال غریبوں کا بچالو
غربت ہے بہت بھوک سے مرجائیں گے سارے
مزدور کماتے ہیں جو پورا نہیں ہوتا
اب ہوتے نہیں گھر میں غریبوں کے اجالے
غربت نے یہ شہزاد مرا حال کیا ہے
جب کی ہے مسافت تو پڑے پاؤِں میں چھالے