سرکش ہوگیا حال مگر اتنا بھی نہیں
اُس کی آنکھ میں کمال اتنا بھی نہیں
مجھے کسی کے خیال سے خودسری ہے مگر
اپنے خلل سے استقلال اتنا بھی نہیں
ہوسکتا ہے کہ کبھی رنجشیں مسترد نہ ہوں
ابکہ یہ چہرا ملال اتنا بھی نہیں
کچھ بے سود آزار جو جینے نہیں دیتے
رہا جو دلوں کا احوال اتنا بھی نہیں
ہاں میں جن شوخیوں میں پرجوش ہوں
تیرے زمانے میں جلال اتنا بھی نہیں
کچھ رمز کی باتیں خلاصہ کرلیتے ہیں
باقی زندگی کا سوال اتنا بھی نہیں