سنگدل تھا اس سے پھر بھی محبت رہی مجھے
خود کو تباہ کرکے بھی راحت رہی مجھے
دنیا ہے مال و زر کی محبت میں مبتلا
برعکس اس کے پیار کی حاجت رہی مجھے
بے وجہ ساری رات وہ سڑکوں پہ گھومنا
اک دور تھا عجیب سی وحشت رہی مجھے
آتا ہے یاد آج بھی شدت سے رات بھر
کب اس کو بھول جانے پہ قدرت رہی مجھے
فکر معاش فن کو مرے چاٹتی رہی
روٹی کی عمر بھر تو ضرورت رہی مجھے
میرے خلوص کا کبھی تجھ سے ملے صلہ
ناداں ہوں آج تک یہی حسرت رہی مجھے
رشتوں کو ٹوٹنے سے بچاتا رہا سدا
اس بات کی ہمیشہ مسرت رہی مجھے
شاید کہ روز حشر مرا کم حساب ہو
انساں سے پیار کرنے کی عادت رہی مجھے