سینے کی تپش نکلے ذرا آنکھوں کےگھرسے
بارش کی طرح ہم پہ کوئی ٹوٹ کے برسے
شعلہ اگلتے دن کا لیں احسان کس لیے
چاہت کی زمیں پیار کے دو بول کو ترسے
نفرت کی آندھیوں نے کیا دشت کو صحرا
دیکھو کٹے پڑے ہیں شجر کسطرح جڑ سے
رشتوں کی نارسائی کا شکوہ بہت مگر
ہم تو چپ ہیں کسی طوفان کے ڈر سے
بارش سے بجھ سکے گی کہاں میری تشنگی
کوئی نہیں جو دیکھے مجھے تیری نظر سے