شام آئی تری یادوں کی خماری نکلے
چاند کے ساتھ مری حسن نگاری نکلے
کس قدر آنکھ میں دہشت تھی نہ پوچھو مجھ سے
خواب میں آنکھ سے جب چھپ کے پجاری نکلے
میرے اس عشق کی بابت اسے معلوم ہے کیا
جس کی چاہت میں سبھی جرم ہی جاری نکلے
ایک موہوم تمنا ہے ترا پیار ملے
شام کی زلف سے گر بادِ بہاری نکلے
موسمِ گل پہ بھی کیوں آج خزاں ہے بھاری
جانے کس سمت سے یہ درد گساری نکلے
میں تو سمجھی تھی مرے پیار میں تر ہیں آنکھیں
وہ مگر اور ہی دنیا کے مداری نکلے
جب بھی دیکھا ہے تجھے وشمہ یہاں پہلی نظر
میری آنکھوں سے محبت کی ہی دھاری نکلے