یاد آتا ہے وہی دور پرانا جاناں
جو ترے ساتھ گزارا تھا زمانہ جاناں
اب کسی طور نہ آئے گا ،ستائے گا مجھے
وقت دیکھا ہے جو بچپن کا سہانا جاناں
ایسے چوروں کی مرے دوست یہ خوش بختی ہے
کس نے لوٹا ہے مرے دل کا خزانہ جاناں
میں غزل لکھتی رہی تیری جدائی میں مگر
شہر میں چلتا رہا جنگی ترانہ جاناں
میرے حصے میں جدائی کی مسافت ہے اگر
میرے حصے کا کوئی ہو گا ٹھکانہ جاناں؟
کیسے ڈھونڈوں گی بھرے شہر میں دیکھو اس کو
میری ہجرت میں ہوا گم جو دوانہ جاناں
سامنا موت کا ہو جائے گا وشمہ جس دن
کھیل ہو جائے گا یہ ختم پرانا جاناں