غبارِ دشت ہوئیں وحشتیں ہیُولوں کی
جنوں میں رقص کرے تیرگی بگُولوں کی
میں جا بہ جا نہیں سر ایک جا جھکاتا ہُوں
مرے یقین میں میراث ہے رسُولوں کی
محبتوں میں بھی کیا کوئی آزماتا ہے
دلوں میں بات کہاں آگئی اصُولوں کی
جس آئینے میں ترا عکس جھلملایا تھا
اُس آئینے سے مہک آرہی ہے پُھولوں کی
میں ورۡد ہُوں مرا مسلک ہے رنگ اور خوشبو
مری سرشت میں کیا ہو چبھن ببولوں کی