غزل اپنی سنانا چاہتا ہوں
میں خود کو آزمانا چاہتا ہوں
بہت رویا ہوں ان کو یاد کرکے
رمق بھر مسکرانا چاہتا ہوں
نہیں مالوب سے شکوہ کروں گا
میں اپنے غم چھپانا چاہتا ہوں
خوشی کے یاد لمحے اب رکھوں گا
سبھی رنجشیں بھلانا چاہتا ہوں
مجھے اک بے وفا سے پیار ہے اب
اسے دلہن بنانا چاہتا ہوں
نہیں لگتا بنا اس کے مرا دل
یہ ہی اس کو بتانا چاہتا ہوں
جدائی سہ نہیں پاؤں گا اب میں
میں ساجن کو منانا چاہتا ہوں
اسے شہزاد ملنے کے لیے اب
سمندر پار جانا چاہتا ہوں