ہزار خواب نظر میں جگا کے چلتے ہیں
ہم اپنی راہ میں منظر سجا کے چلتے ہیں
سُجھا تو دیتے ہیں یارانِ کم نگاہ کو بھی
ہرایک چال ہم اپنی ، جتا کے چلتے ہیں
حساب ہم نے کسی کا اُٹھا نہیں رکھا
یہ قرضِ جاں ہے، سو یہ بھی چُکا کے چلتے ہیں
چراغ یادوں نے ایسے جلائے ہیں دل میں
کہ جن پہ زور، نہ جادو، ہوا کے چلتے ہیں
تمام راہیں گلستاں کی بند ہوں جن پر
وہ خاک ہو کے ، جِلو میں صبا کے چلتے ہیں
یہ لوگ شیشے سے نازک تھے اپنی کایا میں
جو روز و شب کی چٹانیں اُٹھا کے چلتے ہیں
ادب کی جا، یہ مقاماتِ عشق ہیں، طارق
کہ کج کلاہ بھی یاں ، سر جھکا کے چلتے ہیں