غزل غزل جو اجالا ہے سب تمہارا ہے
جو سحرِ شعر کا ہالہ ہے سب تمہارا ہے
خلوص، مہر، محبت، وفا، یقیں ایثار
جو دل کی تہہ سے نکالا ہے سب تمہارا ہے
ہر ایک موڑ پہ تھیں بدگمانیاں رہزن
جو، زارِ عشق سنبھالا ہے سب تمہارا ہے
کہیں پہ لیلیٰ، کہیں شیریں اور کہیں پر ہیر
صدی صدی جو حوالہ ہے سب تمہارا ہے
کسی بھی طور نکلنا ہے جس سے ناممکن
جو، اضطراب کا جالا ہے سب تمہارا ہے
کہاں میں اور کہاں جدّتِ سخن جاناں
یہ جو خیال نرالا ہے سب تمہارا ہے
ہوا نے وَرۡد کی خوشبو کو رنگ کی صورت
دھنک دھنک جو اچھالا ہے سب تمہارا ہے