اس دل میں چھپے غم کے کتنے افسانے ہیں
ظلم ڈھا کر بھی ستمگر بنے انجانے ہیں
اک تجلی سے فقط منور ہوا ہےعالم سارا
پوشیدہ ہر جانب نت نئے بت خانے ہیں
اس وحشت دوراں سے بھاگوں کہ کہاں جاؤں
جہاں تلک بھی نظر جائے ویرانے ہی ویرانے ہیں
حسن و عشق کی بدنامی کے ڈر سے اب وہ
اپنے اپنے ہوتے ہوئے بھی بیگانے ہیں
حلقہ زنجیر یاراں بنا کر چاروں طرف اپنے
مشق سخن کرتے ہوئے تیرے پروانے ہیں
چشم نگاہ یار سے پینے کی طلب ہے ساقی
ویسے تو میسر یہاں پینے کو کئی پیمانے ہیں
بلال ! محبت قیس کا دعویٰ تو کرتے لیکن
کہلاتے پھر بھی تیرے ہی دیوانے ہیں